(تحریر، محمد طارق )
اسلامک کونسل ناروے جو ساری نارویجین مسلمان تنظیموں اور مساجد کی نمائندہ تنظیم ہے- مسلمانوں کے اندر اپنے روایتی عدم برداشت ، غیر جمہوری رویوں اور واضح مذہبی نظریاتی اختلافات کی وجہ سے اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔
اب اسلامک کونسل ناروے کے پاس آخری موقع ہے کہ کس طرح وہ وزارت ثقافت کے سامنے 14 ستمبر 2017 کی میٹنگ میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں – وزرات ثقافت سماجی و مذہبی تنظیموں کو سالانہ ملینز کراون کی امدد دیتی ہے – تاکہ یہ تنظیمیں معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے شہریوں کی منشا کے مطابق ان کے مذہبی، سماجی حقوق کا تحفظ کریں،ساتھ ان شہریوں کی نارویجین معاشرتی اصولوں اور اقدار کے پیرائے میں رہ کر ان کی تربیت کریں، تاکہ معاشرہ اجتماعی نظریات میں زیادہ تقسیم نہ ہو ۔
اسلامک کونسل ناروے کا 2015 سے شروع ہونے والا انتظامی بحران 2017 میں نارویجین میڈیا کی ہیڈ لائن کی زینت بنا – جب اسلامک کونسل ناروے نے ایک نقاب پوش خاتون کو اپنے دفتر ی معاملات چلانے کو اپنے ہاں کام دیا – اس نقاب پوش خاتون کا اسلامک کونسل میں کام شروع کرنے کی وجہ سے نارویجین مسلم معاشرہ تقسیم ہوگیا ، کچھ مسلمان اس نقاب پوش خاتون کی حمایت ، کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی اسلامک کونسل کےسابق عہدے داروں اور کچھ مساجد کا موجودہ منتخب بورڈ اور پیڈ جنرل سیکریٹری کے ساتھ انتظامی امور پر اختلاف چل رہا تھا ، انہوں نے بھی نقاب پوش خاتون کام معاملے کو سیاسی سرکل میں استعمال کرنا شروع کر دیا ، اور دبے الفاظ میں وزرات ثقافت کو پیغام دیا کہ اسلامک کونسل ناروے غلط راستے پر چل پڑی ہے لہاظہ وزرات ثقافت ان سے باز پرس کرے۔
اس سلسلے میں گرمیوں سے پہلے وزیر ثقافت اور اسلامک کونسل کے درمیان ایک اجلاس ہوا ، جو بغیر کسی نتیجے کےختم ہوا تھا ۔
اس نقاب پوش ایشو کو سامنے رکھتے ہوئے وزرات ثقافت نے اسلامک کونسل ناروے کے ششماہئ فنڈز روک دیے ہی۔
الیکشن2017 : ناروے کی قومی اسمبلی
وزرات ثقافت نے جب فنڈز روکے تو گوشت پروڈکشن کی کمپنی نورتورا نے بھی دبے الفاظ میں اسلامک کونسل کے ساتھ اپنا کاپورشن ختم کرنے کی دھمکی دی تھی – اسلامک کونسل ناروے نورتورا کے گوشت کے پروڈکٹ کو حلال گوشت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں، جس سے کمپنی کو مسلمان گاہکوں تک رسائی آسانی ہوتی ، اس حلال سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے اسلامک کونسل ناروے کو سالانہ 1،5 ملین کروان ملتے ہیں ۔
اسلامک کونسل ناروے کا معاملہ اب پھر نارویجین میڈیا کی شہہ سرخیوں میں کیونکہ پچھلے ہفتے ناروے کی بین المذاہب تنظیم ایس ٹی ایل نے بھی اسلامک کونسل ناروے کے اندرونی لاینحل معاملات پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ، بقول جنرل سکریٹری ایس ٹی ایل اسلامک کونسل ناروے ایشوز کو حل کرنے کی بجائے، عام لوگوں اور خاص طور پر مسلم رائے عامہ کے سامنے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے – جو کہ بین الثقافتی، بین المذاہب معاشرے میں انتہائی غلط کوشش ہے ۔
ان سارے معاملات کو دیکھتے ہوئے سول سوسائٹی کی تنظیموں پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں اب اسلامک کونسل ناروے کے پاس اب صرف آخری موقع ہے کہ وہ کس طرح 14 ستمبر 2017 کو وزرات ثقافت کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اسلامک کونسل ناروے کا مذہبی نظریاتی نقطہ نظر ، اور انتظامی امور چلانے کے معاملات سامنے رکھتے ہیں- اگر اسلامک کونسل ناروے نے نقاب پوش خاتون مقرر کرنے پر ہارڈ لائن رکھی تو پھر اسلامک کونسل ناروے کی تحلیل کو کوئی نہیں بچا سکتا – کیونکہ ناروے کی بین المذاہب تنظیم، کچھ مسلمانوں کی بڑی مساجد کی تنظمیں، اور نارویجین سیاسی اسٹیبلشمنٹ اسلامک کونسل ناروے کی موجودہ منیجمنٹ ، کام کرنے کے طریقے سے پچلھے ایک سال سے نا خوش ہیں ۔